کیا لاک ڈاؤن سے ختم ہونے والی آلودگی واپس آ رہی ہے

اکستان کی وفاقی حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران تعمیراتی صنعت کو کام کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد 20 ہزار کے قریب اینٹوں کے بھٹے بغیر کسی ماحولیاتی حفاظتی اقدامات کے دوبارہ کھل گئے ہیں۔
ان میں سے بیشتر بھٹوں کو گذشتہ سال اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں پیدا ہونے والی سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے بعد بند کیا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے انہیں تنبیہہ کی گئی تھی کہ وہ آلودگی پھیلانے سے بچنے کے لیے 'زگ زیگ' ٹیکنالوجی اپنائیں ورنہ انہیں ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔ تاہم پاکستان بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے مطابق تازہ ترین حکومتی احکامات کے بعد کھلنے والے تقریباً 20 ہزار بھٹوں میں سے صرف سات سو میں ’زگ زیگ‘ ٹیکنالوجی اپنائی گئی ہے جب کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک سرکاری ادارے کے مطابق 'صرف چھ سو بھٹوں میں اس ٹیکنالوجی کی تنصیب کی جا سکی ہے۔'
زگ زیگ ٹیکنالوجی بنیادی طور پر اینٹوں کے بھٹے کے اندر بنایا گیا ایک سٹرکچر ہوتا ہے جو اینٹیں پکانے کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن کے دھوئیں کے اثرات زائل کر کے اس کو ماحول کے لیے کم نقصان دہ بناتا ہے۔ 
تعمیراتی صنعت کو دیے گیے پیکج کے بعد کھلنے والے بھٹوں میں صوبہ پنجاب کے داراحکومت لاہور کے علاوہ ان آٹھ اضلاع کے بھٹے بھی شامل ہیں جن کے مالکان کو حکومت نے حکم دے رکھا تھا کہ وہ رواں سال جون کے مہینے تک ہر صورت ماحولیاتی تحفظ کی ٹیکنالوجی نصب کر لیں بصورت دیگر انہیں کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ 

ماہرین کے مطابق بھٹوں کا دھواں ماحول کے لیے خطرناک ہے (فوٹو: اے ایف پی)
 بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے صدر شعیب خان نیازی کا کہنا ہے کہ 'لاک ڈاؤن اور مالی و تکنیکی معاملات کی وجہ سے ان احکامات پر عمل درآمد ناممکن ہے اور ان کی تنظیم اس معاملے پر نظرثانی کے لیے حکومت سے مذاکرات شروع کرنے والی ہے۔'
شعیب خان نیازی کے مطابق 'ایک بھٹے کو ’زگ زیگ‘ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لیے 25 سے 30 لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے جس کا بندوبست کرنا بہت سارے بھٹہ مالکان کے لیے ممکن نہیں ہے، لہٰذا حکومت کی مالی اور تکنیکی مدد کے بغیر 100 فیصد بھٹوں میں اس ٹیکنالوجی کی تنصیب عمل میں نہیں آ سکے گی۔'
دوسری طرف حکومتی اداروں کا خیال ہے کہ مجوزہ جدید ٹیکنالوجی ماحولیات میں بہتری کے ساتھ ساتھ بھٹوں کی پیداوار بہتر بناتی ہے اور لاگت کم کرتی ہے جس کی وجہ سے تمام بھٹہ مالکان آہستہ آہستہ خود ہی یہ ٹیکنالوجی حاصل کر لیں گے۔

بھٹہ مالکان کے مطابق تمام بھٹوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی لگانا ممکن نہیں (فوٹو: اے ایف پی)
صوبہ پنجاب جہاں سب سے زیادہ بھٹے موجود ہیں اور جہاں ماحولیاتی آلودگی بھی زیادہ ہے کے ادارہ ماحولیاتی تحفظ کے ڈائریکٹر نسیم الرحمان شاہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی بھٹے کو ہمیشہ کے لیے بند کرنا عملی طور پر ممکن نہیں تاہم وہ بھٹہ مالکان کو ماحول دوست اقدامات کرنے کے لیے تحریک دے رہے ہیں۔ 
ماحولیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ بغیر کسی تحفظ کے بڑے پیمانے پر بھٹے چلانے سے گذشتہ دنوں میں بہتر ہونے والی ماحولیاتی فضا پر واضح اثر پڑے گا۔
سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ماہر ماحولیات ڈاکٹر عمران خالد کہتے ہیں کہ 'بھٹوں سے نکلنے والا دھواں آلودگی میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے اور ان کے کھلنے سے ان علاقوں میں جہاں یہ بھٹے چل رہے ہیں لاک ڈاؤن سے بہتر ہونے والی فضا دوبارہ سے خراب ہو جائے گی۔'

ماہرین کہتے ہیں کہ بھٹے بند ہونے سے ماحول پر مثبت اثرات پڑے (فوٹو: اے ایف پی)
ان کے بقول جب تک ان بھٹوں کا ایندھن بہتر نہیں بنایا جاتا اور گاڑیوں کے پیٹرول کی کوالٹی کو بہتر نہیں کیا جاتا، پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں واضح اور مستقل بہتری ممکن نہیں ہے۔ 
ماحولیاتی آلودگی پر تحقیق کرنے والے ایک اور ماہر احمد رافع عالم کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان میں بہتر ہونے والی فضا کا رواں ماہ سے دوبارہ خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
 ان کے مطابق ربیع کی فصل کی کاشت کے بعد کسان کھیتوں میں بچی کھچی فصلیں جلائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا جبکہ فی الحال بند صنعتیں بھی آہستہ آہستہ کھلنا شروع ہو جائیں گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھٹے کو ہمیشہ کے لیے بند کرنا ممکن نہیں (فوٹو: اے ایف پی)
احمد رافع کا کہنا ہے کہ اس سب کے ساتھ اینٹوں کے بھٹے بھی تعمیراتی صنعت کو زیادہ سے زیادہ اینٹوں کی فراہمی کے لیے بھرپور پیداوار دیں گے اور یہ سارے عوامل مل کر ماحولیاتی آلودگی میں پھر سے اضافہ کر دیں گے۔ 
وہ کہتے ہیں کہ ’ہوسکتا ہے کہ یہ اضافہ انسانی آنکھ کو نظر نہ آئے لیکن فضا خراب ضرور ہو گی۔'

Post a Comment

0 Comments